احیاء دین کی اسلامی تحریکیں اور
ہندوستان
از: سہیل اختر قاسمی
ہندوستان ایک قدیم اور دیومالائی
ملک ہے، یہاں کی تہذیب وثقافت، معاشرت، رہن سہن، اور زندگی
میں توہم، عقیدت پرستی اور لغو عناصر، زیادہ اثر انداز ہیں،
اسلام کی باریابی کے باوجود اس ملک کے مزاج کہنہ میں زیادہ
تبدیلی نہیں آئی، عرب سے آنے والے مجاہدین بغرض
اشاعت دین اس ملک میں قیام پذیرہوئے اور دعوتی مہم
سرکیا، ہزاروں ہندوستانی باشندگان مشرف باسلام ہوئے، اسلام کے صاف
ستھرے عقیدہ، تہذیب اور ثقافت کو تسلیم کیا، مگر مزاج
کہنہ، نے دوبارہ یاری کرلی، اسلام کی برقراری اور
اس کے وجود کے باوجود غیراسلامی بدعات نے طرح پائی، شرک وتوہم
پرستی نے جگہ بنائی، فطری مزاج کی بناء پر تزکیہ
وتصوف میں پنڈتانہ اثرات در آئے اور اس طرح ہنگامہ بپا ہوا کہ صحیح
اسلامی تہذیب وعقائد کے حاملین کی تعداد مٹھی بھر
رہ گئی اکبر کا فسق وکفر اس ماحول کا نتیجہ تھا، بادشاہان ہند کی
بدعاتی دھماچوکڑی اسی مخدوش نظام فکر کا شاخسانہ تھا، تاآنکہ
اسلامی نظام کے نام پر مخدوش نظام ایک طویل زمانے تک چلتا رہا۔
صحیح فکر علماء وصلحا ان غیریقینی
حالات سے بہت افسردہ تھے اس کے سدباب کی کوشش کرتے تھے، مگر ہماہمی
اور افراتفری نے ان کے بازوؤں کو روک رکھا تھا، مجددالف ثانی رحمة
الله عليه، ذرابے باک اور جری ہوئے اور مسلمانوں کا سخت ترین محاکمہ کیا،
لیکن یہ محاکمہ تواس ماحول سے تھا جس میں کفر رچ بس چکاتھا،
محاکمہ کا اتنافائدہ ہوا کہ عوام کفر کے ماحول سے فسق وبدعت کے ماحول کی طرف
لوٹ آئے، یہ محاکمہ ہندوستان کی سب سے پہلی اسلامی تحریک
سے جانی جاسکتی ہے، بعد ازاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
رحمة الله عليه نے ان غیریقینی اور مسموم فضاء کے سدباب
کے لئے اپنی تبلیغی مساعی کو تیزتر کیا۔
یہ مساعی افادیت سے خالی
نہیں رہے؛ بلکہ ثقافت اسلامی اور علوم نبویہ کی حفاظت کا
ضامن بن گئیں، محدث دہلوی کی یہ حرکیت، ہندوستان میں
اسلامی تحریک کے معاون یا شریک کے طور پر تھی۔
دراصل اس کے باوجود ہندوستان میں
اسلامی فضاء کی ہمواری اور تشکیل نہ ہوسکی، پورے
طور پر بدعات کا قلع قمع نہ ہوسکا، تصوف وسلوک کے دیومالائی مراقبات،
بدعات وخرافات، تعزیہ داری کے رسوم اور بیوہ عورتوں سے نکاح نہ
کرنے کی مذموم ہندوانہ بدعات جڑسے اکھاڑے نہ جاسکے، جہاد اسلامی کے
خفتہ جذبات بیدار نہ کئے جاسکے، تبلیغ و دعوت اور اعلاء کلمة اللہ کے
منصفانہ حقوق کی ادائیگی نہ ہوسکی، اور یونہی
ہندوستانی مسلمان، بدعات و خرافات اور جہاد بیزاری کے گنہگار
احساسات میں جیتے رہے۔
اسی دوران اودھ کے حسنی سادات
میں سیداحمد شہید رحمة الله عليه پیدا ہوئے اور اپنی
انقلابی فکر سے اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالی
تاآنکہ اس اسلامی تحریک نے ہندوستان کو ایک صحیح مسلم
معاشرہ فراہم کیا اور ایک بڑی تعداد میں اسلامی
عقائد سے لوگوں کو مشرف کیا، یہ تحریک اپنے خدمات، کارناموں اور
سرگرمیوں کی بنا پر ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی
تحریک کہے جانے کے زیادہ مستحق ہے۔
یہ تحریک خالص کتاب وسنت، دعوت
وتبلیغ اور جہاد ومجاہدہ کی تحریک تھی،اس کا مقصد بدعات
وخرافات کا قلع قمع تھا، اس کا ہدف دین محمدی میں عہد فاروقی
کی پاکیزگی اور شوکت پیدا کرنا تھا، توحید خالص کی
تبلیغ، مراسم تعزیہ کی بیخ کنی، بدعات اور غیراسلامی
مروجات کا استیصال ان کے مشن کا لازم حصہ تھا، خصوصاً جہاد اور غیراسلامی
طاقتوں سے محاذ آرائی ان کا لازمی ہدف تھا، مشہد بالاکوٹ کی شہیدانہ
سرخیوں سے آج بھی اس تحریک کی مقصدیت سے آگاہی
لی جاسکتی ہے تعزیہ شکنی کے عملی کارناموں سے یہ
جانا جاسکتا ہے کہ وہ تحریک ایک عملی تحریک تھی،
سکھ فسادیوں سے جنگ یہ بتاتی ہے کہ وہ اسلامی تحریک
تھی، اصحاب تحریک کی عزیمت یہ اعلان کرتی ہے
کہ وہ جری تحریک بھی تھی اور ہندوستان میں موجودہ
مسلم معاشرہ بزبان حال یہ بتاتا ہے کہ وہ اصلاحی تحریک بھی
تھی۔
سید احمد شہید رحمة الله عليه
کی اس تحریک کا ایک اہم عنصر جہاد فی سبیل اللہ تھا
”الجہاد ماض“ کے نقش رفتگاں کو نقش حال بنانے کی غرض ان قوتوں کو شکست
ورسوائی دینا تھی، جو اسلامی معالم کو نشانہ بناتی
ہے، مسلم آبرو سے کھلواڑ کرتی ہے، اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتی
ہے اور مسلم قوم پر مظالم کے پہاڑ توڑتی ہے، دراصل یہ جہاد ہراس قوت
کے خلاف تھا، جس میں مسلم دشمنی انگڑائیاں لیتی تھیں۔
چونکہ اس دور میں مسلمانوں کا سب سے
بڑا دشمن انگریز تھا بایں بناء اس تحریک کا سب سے پہلا نشانہ بھی
انگریز ہی تھا یہ الگ بات ہے کہ سکھوں نے بھی اسلام دشمنی
کا مظاہرہ کرکے، مسلم دشمنوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوادیا
تھا، ہر اسلام دشمن، اس تحریک کا دشمن تھا، دشمن تو دشمن ہوتا ہے پھر کیافرق
پڑتا ہے کہ وہ انگریز ہو یا سکھ۔
اس تحریک نے سب سے پہلے سکھوں کے
خلاف محاذ آرائی کی، اور اس سے جنگ کیا، تاآنکہ بالاکوٹ کی
ولولہ انگیز داستان شہادت معرض وجود میں آئی، سیداحمد شہید
ہوگئے مگر ان کی تحریک جاری رہی، بدعات کے خلاف، مشرکانہ
رسوم کے خلاف اور اسلام دشمنی کے خلاف۔
ہندوستان کی یہ سب سے پہلی
اسلامی تحریک اول دن سے کامیاب رہی، مجاہدین اور
اصحاب باصفا کی کوششوں اور فداکاریوں سے اسلامی ہند کی
حالت میں تبدیلی آئی، بیوگان سے نکاح کی مذمت
کاہندوانہ رسم ختم ہوا، علمی خاندانوں، اور علماء دین کے گھروں میں
ہی نہیں بلکہ عوام کے طریقہٴ بود وباش میں بھی
اسلامی تہذیب زندہ ہوئی۔
”آداب عرض“ کے بجائے ”السلام علیکم“
کا رواج برپاہوا، نوابی عیاشیوں کو اسلامیانے کی
روایت متروک ہوئی، انگریزوں سے لوہا لینے کی فضاء
اور ہمت سازگار ہوئی، جہاد فراموشی کے جراثیم ختم ہوئے، اسلام
پسندی کے احساسات جنم لینے لگے، صحیح مسلم قومیت بیدار
ہونے لگی اور ہر وہ کچھ ہونے لگا جس سے جہاں مسلمانوں کے اچھے مستقبل کی
امید بندھی وہیں اسلام کے بول بالا کے توقعات بھی جنم لئے
الغرض اس تحریک کے، جو کہ سید احمد شہید کے انقلابی حرکیات
کی اوپج ہے ہندوستان کے مسلم معاشرے پر کافی بہترین اثرات مرتب
ہوئے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس تحریک کے
جنگی مشن کو فتوحات کی کامیابی نہیں ملی،
انگریزوں کو ہندبدر کرنے کا خواب پورا نہ ہوا اور سکھ مخالف جنگ فتح سے ہم
کنار نہ ہوئی، ہاں البتہ، مزاحمت ہوتی رہی حوصلہ زندہ رہا، صحیح
اسلامی تہذیب پرورش پاتی رہی، نئی نسل میں
آزادی کی روح بیدار ہونے لگی، اور ہندوستان کو آزاد کرنے
کی مساعی جاری رہے، دراصل اس تحریک کی ظاہری
ناکامی میں باطنی کامیابی تھی، معنوی
فوز وفلاح تھی، کیونکہ اس ناکامی نے ہی استقلال، مزاحمت
اور سعی مسلسل کا درس دیا تھا، اسی محرومی کے احساس سے
کچھ پالینے کا سودا سوار ہوا تھا اور اسی سے محبین وطن کی
ایک بڑی کھیپ تیار ہوئی۔
علاوہ ازیں دیگر اسلامی
تحریکات نے بھی احتیاء دین کا کام انجام دیا ہے
بعضے تو ایسے ہیں جو صرف تاریخ کا حصہ ہیں یعنی
اب وہ پارینہ بن چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کی
سرگرمیوں کا تانا جہاں ماضی سے جڑتا ہے وہیں حال میں بھی
اس کے خطوط نظر آتے ہیں۔
جیسے تحریک دیوبند، اس
نے جہاں ماضی میں تجدید دین کا کارانجام دیا ہے وہیں
آج بھی اس کار خیر میں مصروف ہے بلکہ ۱۸۶۷/میں اس ادارہ کی تاسیس
تجدید دین کی غرض سے ہی عمل میں آئی تھی،
۱۵۰ سالہ تاریخ
اسلام میں جہاں فروغ اسلام کا عنوان آئے گا وہاں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند
کے اسلامی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی اثرات
پورے طور پر ثبت ملیں گے،اسی نے لاکھوں کی تعداد میں
علماء پیدا کیا اور اسی تعداد میں ماہرین شرعیات
بھی، آج علماء کا یہ طبقہ جہاں فروغ اسلام کی سعی کررہا
ہے وہیں بقاء دین کی جدوجہد بھی۔
اس زاویہ سے زیادہ قابل تعریف
مدارس اسلامیہ ہیں، کیونکہ دینی مدارس کے طفیل،
احیائے دین کی تحریکات برقرار اور جاری ہیں،
اس ضمن میں مدارس کی مسلکاً تفریق لایعنی ہے، ہر
جماعت کے نمائندہ ادارے قدرے فرق کے ساتھ احیاء دین کے مبارک اور
مسعود کام میں مصروف ہیں، یہ تمام تحریکات اپنے اپنے ظرف
کے مطابق احیاء دین کا کام انجام دے رہے ہیں۔
احیاء دین کی یہ
کوششیں جہاں انفرادی سطح پر جاری ہے وہیں اجتماعی
پلیٹ فارم سے بھی تجدید دین کا مظاہرہ ہورہا ہے، آج کے
ہندوستان میں مسلم عوام کے اندر اسلام کی طرف لوٹنے کا جو عمل شروع
ہوا ہے۔ اس کا سہرا انہی جماعتوں، جمعیتوں اور تحریکوں کے
سرجاتا ہے جنھوں نے ہندوستان میں احیاء دین کی دواری
اٹھا رکھی ہے۔
احیاء دین اور فروغ دین
میں مفہوماً معمولی فرق ہے، احیاء دین عمل اصلاح سے عبارت
ہے اور فروغ دین اشاعت اسلام اور دعوت کا مفہوم رکھتا ہے۔ یہ
دونوں عمل چونکہ نتیجتاً ایک اور طریقتاً مختلف ہے بایں
بناء اس کے کرنے والوں نے الگ الگ محاذ بنارکھا ہے۔ وہ لوگ جو اصلاح معاشرہ
میں منہمک اور سرگرداں ہیں وہ احیاء دین کا حصہ ہے اور جو
غیرمسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں وہ فروغ دین
اور اشاعت اسلام کا حصہ ہے۔
بہرکیف ہندوستان، احیاء دین
کے حوالے سے کبھی تعطل اور بے راہ روی کا شکار نہیں رہا، ہر
زمانے میں یہاں تجدیدی عوامل اور اصلاحی امور انجام
دئیے جاتے رہے ہیں فروغ دین اور اشاعت اسلام کا عمل ہمیشہ
جاری رہا ہے، بالیقین یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے
موقع افتخار ہے کہ ہرزمانے میں مسلم عوام کی اسلامی رہنمائی
کے لئے ایک بڑاطبقہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔
___________________________________
ماہنامہ دارالعلوم
، شماره 08 ، جلد: 93 شعبان 1430 ھ مطابق اگست 2009ء